Orhan

Add To collaction

غلط فہمیاں

غلط فہمیاں
از حورین 
قسط نمبر5

آج مرتضیٰ صاحب گھر آیے تھے ۔وہ ہسپتال میں ان سے ملنے نہیں گئی تھی 
ابھی وہ لاؤنج بیٹھے تھے تو کشش بھی وہاں آ گئی۔حمزہ اور علینا یونی تھے وہ بھی آج ہی گئے تھے جب کہ وہ آج بھی نہیں گئی تھی وہ دو دن بعد انھیں دیکھ رہی تھی اس پہلے وہ کچھ کہتی بیل نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا تو صائمہ خالہ نے دروازہ کھولا ار کچن میں چلی گئیں تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کے سب پریشان ہو گئے ۔وہ بنا کسی کو خاطر میں لائے کشش کے پاس جا کے روکا اور اسکا بازو پکڑ کے چلنے کو کہا جب کہ کشش اس سے اپنا بازو چھڑانے لگی 
چلو۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا 
رک جاؤ یہ کیا بے ہودہ حرکت ہے میری بیٹی کہیں نہیں جائے گی ۔مرتضیٰ صاحب کشش کو پکڑ کے پیچھے کرتے بولے جب کہ کشش اس سب میں بے بس تھی یا شاید اس کے پاس بولنے کو کچھ نہیں تھا 
کیوں مرتضیٰ صاحب اب شادی کے بعد بیٹی کا اصل گھر تو شوہر کا گھر ہی ہوتا ہے نہ ۔اس نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔جب کہ اسکی بات سن کے کشش کے رونگٹے کھڑے ہو گئے  
میں نہیں مانتا اس جھوٹ کومجھے میری بیٹی پے یقین ہے تم کیا سمجھتے ہو یہ کاغذ کا ٹکڑا دکھا کے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہو بلکل نہیں ۔انہوں نے کشش سخت لہجے میں کہا جب کہ فاطمہ بیگم پریشانی سے یہ سب دیکھ رہیں تھیں اور کشش کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آنے لگے کہ اسکے بابا  اس پے یقین کرتے ہیں
وہ تو میں دیکھ ہی چکا ہوں آپکو کتنا یقین ہے اپنی پارسا بیٹی پے۔ اس نے نے طنزیہ کہا اسکا اشارہ اس دن کی طرف تھا ۔۔۔اور حقارت بھری نظر کشش پے ڈالی 
 اور میں اپنی بیوی کو یہاں سے لے کے ہی جاؤں گا ورنہ کورٹ کے زریعے بھی مجھے زیادہ سے زیادہ دو دن ہی لگیں گے لیکن اس کے بعد جو ہوگا اسکا آپ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس نے وارن کرنے والے انداز میں کہا 
نہیں بابا میں نہیں جاؤں گی پلیز بابا مجھے کہیں نہیں جانا ۔کشش مرتضیٰ صاحب کا ہاتھ پکڑ کے روتے ہوئے کہا جب فاطمہ بیگم اس کے پاس آئیں اور اسے اپنے گلے لگایا 
نہیں بچے پریشان نہیں ہو میں تمہیں کہیں نہیں جانے دونگا ۔انہوں اس کے سر وے ہاتھ رکھتے کہا 
ہوں ۔ڈرامے باز۔ زارون نے نفرت سے سوچا اور پھر مرتضیٰ صاحب کی طرف دیکھتے بولا 
کشش کو تو میں یہاں سے لے ہی جاؤں گا لیکن ذرا سوچیں مرتضیٰ صاحب آپ کے بھائی نشانی وہ کیا نام ہے اسکا ہاں علینا اور وہ حمزہ یونی جاتے ہیں نہ اگر وہ ایک دن واپس ہی نہ آئیں تو اور کشش وہ بھی تو جاتی ہے نہ ۔اس نے نے سادہ سے لہجے میں کہا جب کہ اسکی بات سن کے مرتضیٰ صاحب فاطمہ بیگم اور کشش نے حیرانی اور بے یقینی سے اسکی جانب دیکھا 
آ آ ایسے مت دیکھیے مرتضیٰ صاحب سچ میں آج کل دنیا بہت خراب ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے 
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے 
مجھے روک کون سکتا ہے ۔چلیں ایک ڈیل کرتے ہیں آپ  کشش مجھے دے دیں میں بدلے میں آپکے بھائی کی نشانی آپکو دے دوں گا صحیح سلامت 
تمہاری ہمت کیسے ہوئی ایسا سوچنے کی بھی  کہ میں کشش کو تمہارے ساتھ جانے دوں 
آ آ آ۔۔ابھی انکی بات درمیان میں تھی کہ اسنے کشش کو اپنی جانب کھینچا اور اور اس کے سر پے گن رکھ دی ۔جب کے مرتضیٰ صاحب یہ دیکھ کے بوکھلا گئے 
یہ یہ کیا کر رہے ہی تم چھوڑو اسے ۔انہوں نے اگے بڑھتے اسے بچانے کی کوشش کی 
نہ نہ مرتضیٰ صاحب یہ غلطی مت کیجئے گا اگر آپ اگے برھے تو یہیں اسکی جان جائے گی ۔اس نے اسکے بازو پے پکڑ سخت کرتے کہا جب کہ کشش خوف سے کانپنے لگی اور اس کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکل رہی تھی۔اور فاطمہ بیگم بے یقینی سے اسے دیکھ رہیں تھیں  
اب وہ آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا اور مرتضیٰ صاحب بھی آہستہ آہستہ آگے جانے لگے کے تب ہی انھیں گن چلنے کی آواز آئی
آ آ آ  ۔اس نے کشش کے بازو پے گولی چلای تھی اس نے بے یقینی سے اپنی بازو کی جانب دیکھا جہاں سے خون بہ رہا تھا جب کہ آواز سن کے صائمہ خالہ بھی  باہر آئیں اور یہ یہ سب دیکھ کے بے یقینی سے منہ وے ہاتھ رکھا  
اب وہ درد سے کراہ رہی تھی 
آ آ بابا ۔اس نے اپنے بابا کو پکارا جب کہ فاطمہ بیگم سکتے کی سی کیفیت میں تھیں 
اگر آپ اب آگے بڑھے تو اب کی بار یہ گولی بازو پے تو ہر گز نہیں چلے گی ۔اس نے اس کے سر پے دوبارہ گن رکھتے کہا اور آہستہآہستہ باہر چلا گیا اور سکے جانے کے بعد مرتضیٰ صاحب ڈھے سے گئے اور فاطمہ بیگم ہچکیوں سے رونے لگیں 
*****
باہر جا کے اس نے اسے گاڑی میں دھکیلا  جسکی وجہ سے اس کے بازو میں مزید تقلیف ہوئی ۔خود ڈرائیونگ سیٹ پے آ کے کار سٹارٹ کی اور خاموشی سے ڈرائیونگ کرنے لگا 
کشش روتے ہوئے اپنے بازو سے بہتے خونکو روکنے کی کوشش کر رہی تھی جو کے مشکل ہی تھا کچھ سوچتے ہوئے اس نے دروازہ کھولنے کے لئے ہاتھ بڑھآیا 
*****
لندن
بابا ماما کہاں ہیں آپ۔اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی کہا 
ہاں ہاں بولو بیٹا کیا ہوا اور بابا تو ابھی ہسپتال گئے ہیں ایک ایمرجنسی ہو گئی تھی ۔شہناز بیگم نے کمرے سے باہر اتے ہوئے کہا 
اہ اوکے ماما لیکن میں نے آپکو بتانا تھا کے آج عیشاء کی برتھ ڈے پارٹی  ہے تو میں وہاں جاؤں گی اور رات شاید وہیں رہوں ۔حوریہ نے ان کے گلے لگتے کہا 
ہمم ٹھیک ہے چلی جانا لیکن رات رہنا ضروری ہے کیا بیٹا ۔انہوں پریشانی سے کہا 
نہیں نہ ماما پلیز اینے عیشاء سے وعدہ کیا ہے کے میں آج رات وہیں رہوں گی ۔اس نے صوفے پے بیٹھتے کہا 
اچھا ٹھیک ہے بیٹا لیکن دھیان سے جانا اور شیطانی مت کرنا ۔انہوں پیار اس سے کہا 
ماما اپ فکر مت کریں اپ جانتی ہیں میں بلیک بیلٹ ہوں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہوں ۔اس نے کھڑے ہوتے کہا 
ہاں بیٹا پھر بھی تم لڑکی ہو
 او ماما ایسا کچھ نہیں ہوتا لڑکا لڑکی آج برابر ہیں ۔اچھا میں اب کچھ ریسٹ کر لوں بائے ۔وہ یہ کہتے اپنے کمرے میں چلی گئی جب کہ شہناز بیگم ابھی بھی اس جگہ دیکھ رہیں تھیں جہاں سے وہ گئی تھی آخر یہی انکی کل کائنات تھی جو انکی زندگی میں آئی تھی ۔تب ہی باہر کار ہارن بجا ۔انہوں نے سوچا کے امان صاحب ہونگے اور دروازہ کھولنے چل دیں 

   1
0 Comments